Wednesday, April 15, 2009

UrDU Ghazlain ...

یونہی فاصلوں کو سجائے رکھ یہی انتظار رہنے دے
میرے ذہن و دل کے سکون پر میرا اختیار رہنے دے

تیری چاہتوں کے جو درد ہیں مجھے سب خوشی سے قبول ہیں
میری چشم نم کا گماں نہ کر مجھے اشکبار رہنے دے

تیری بے بسی بھی بجا سہی میری خواہشیں بھی غلط سہی
تجھے ہر قدم پہ خوشی ملے مجھے سوگوار رہنے دے

میری گفتگو میں جو درد ہے یہی درد میرا نصیب ہے
میں بھلا چکا ہوں قرار کو مجھے بےقرار رہنے دے

میرے دل کی آتش کرب کو میری روح کے جلتے فشار کو
کئی بار تو نے بجھا دیا مگر اب کی بار رہنے دے


تنہا

تنہا ہر ایک راہ سے گزر جانا چاہیئے
جیسے جیئے ہیں ویسے ہی مر جانا چاہیئے

جانے یہ دل کا درد کہاں تک ستائے گا
دریا چڑھے تو اُس کو اُتر جانا چاہیئے

احسان

آیا تھا گھر سنوارنے احسان کر گیا
بربادیوں کا اور بھی سامان کر گیا

اب تک رہی اسکی یاد زندگی کے ساتھ
دو چار پل کی مجھ سے جو پہچان کر گیا

آنکھوں نے جس کے شوق میں راتیں سجائی تھیں
خوابوں کی انجمن وہی ویران کر گیا

جھونکا نسیم صبح کا آیا تو تھا مگر
گلشن کی ہر کلی کو پریشان کر گیا



جوگی

ساجن کہیں نہ پائے جوگی

نگر نگر منڈلائے جوگی

روگی ھو بیٹھا دیوانہ

چین کہاں سے لائے جوگی

چاہ کی بُھول بھلیاں اندر

اپنا آپ گنوائے جوگی

دل کا صحرا دیکھ دیکھ کے

ساون کیوں پچھتائے جوگی

درد جا کے ھُوا سوالی

اپنا قول نبھائے جوگی

شہروں سے تھک ہار کے آخر

ویرانوں میں جائے جوگی

اِک چھوٹی سی کُٹیا اندر

پورا شہر بسائے جوگی

کسی جدائی کے پنجرے میں

من پنچھی کُرلائے جوگی


میری داستان

میری داستان الم تو سُن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مدعا نہیں آئے گا تیرا تذکرہ نہیں آئے گا

میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تجھے راستہ نہیں آئے گا

اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے کوئی قافلہ نہیں آئے گا

اگر آئے دشت میں جھیل تو مجھے احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگ خشک ہوں دوستو مجھے ڈوبنا نہیں آئے گا

میری عمر بھر کی بر ہنگی مجھے چھوڑ دے میری حال ہر
یہ جو عکس ہے میرا ہمسفر مجھے اوڑھنا نہیں آئے گا

زندگی

زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا اُنہیں میرے خدا میرے بعد

ہاتھ اُٹھتے ھوئے اُن کے نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دُعا میرے بعد

کون گھونگھٹ کو اُٹھا ئے گا ستم گر کہ کر
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیاء میرے بعد

پھر زمانے میںمحبت کی نہ پُر سش ھو گی
روئے گی سسکیاں لے کے وفا میرے بعد

وہ جو کہتا تھا کہ ناصر کہ لیے جیتا ھوں
اُس کا کیا جانیے کیا حال ھوا میرے بعد

مجھے آواز دے لینا

نئے پھولوں پہ رنگیں تتلیاں جب مسکرائیں تو
گئے موسم کی یا د یں جب تمھارا دل جلا ئیں تو
مجھے آواز دے لینا

کسی ما نوس رستے پر کوئی جب تم صدا پاؤ
میری یادوں کی اپنے گھر میں جب تھوڑی جگہ پاؤ
مجھے آواز دے لینا

گئے لمحوں میں میری قربتیں جب یاد آئیں تو
کبھی راتوں میں میری آہٹیں تم کو ستا ئیں تو
مجھے آواز دے لینا

کہیں ایسا نہ ہو میری سما عت تھک کے سو جائے
یہ میرا دل تمھارا تن کسی دوجے کا ہو جائے
تمھیں پانے کی حسرت یونہی دل میں گھٹ کے مر جا ئے
تمھیں احساس نہ ہو اور کوئی جاں سے گزر جائے
تم اس سے پیشتر مجھ پہ میری جاناں کرم کرنا
مجھے آواز دے لینا مجھے آواز دے لینا

نجانے آج یہ کس کا خیال آیا ہے

نجانے آج یہ کس کا خیال آیا ہے
خوشی کا رنگ لئے ہر ملال آیا ہے

وہ ایک شخص کہ حاصل نہ تھا جو خود کو بھی
مٹا کسی پہ تو کیسا بحال آیا ہے

زباں ‌پہ حرفِ طلب بھی نہیں کوئی پھر بھی
نگاہِ دوست میں رنگِ جلال آیا ہے

کیا نہ ذکر بھی جس کا تمام عمر کبھی
ہمارے کام بہت وہ ملال آیا ہے

نہیں ہے تم سے کوئی دوستی بھی اب تو مگر
قدم قدم پہ یہ کیسا وبال آیا ہے

یہ شبِ فراق یہ بے بسی، ہیں قدم قدم پہ اداسیاں


یہ شبِ فراق یہ بے بسی، ہیں قدم قدم پہ اداسیاں
میرا ساتھ کوئی نہ دے سکا، میری حسرتیں ہیں دھواں دھواں

میں تڑپ تڑپ کے جیا تو کیا، میرے خواب مجھ سے بچھڑ گئے
میں اداس گھر کی صدا سہی، مجھے دے نہ کوئی تسلّیاں

چلی ایسی درد کی آندھیاں، میری دل کی بستی اجڑ گئی
یہ جو راکھ سی ہے بجھی بجھی، ہیں اسی میں میری نشانیاں

یہ فضا جو گرد و غبار ہے، میری بے کسی کا مزار ہے
میں وہ پھول ہوں جو نہ کھِل سکا، میری زندگی میں وفا کہاں


منزلیں مل جائیں گی، ہاں، رہنما کوئی تو ہو

منزلیں مل جائیں گی، ہاں، رہنما کوئی تو ہو
چل پڑیں چلنے کو لیکن راستہ کوئی تو ہو
پار لگ جائیں گی اپنی کشتیاں تم دیکھنا
بیچ طوفاں میں مگر اک ناخدا کوئی تو ہو
ایک دوجے کی نظر میں ہر کوئی مشکوک ہے
ڈھونڈتی پھرتی ہیں نظریں پارسا کوئی تو ہو
ایک ہی پر اکتفا کیوں کر رہے ہوتے ہیں ہم
ہونا تو یہ چاہئیے کہ دوسرا کوئی تو ہو
رونقیں اپنی جگہ ہیں شہر کی پھر بھی مگر
دل کا جو محرم بنے وہ آشنا کوئی تو ہو
ہر طرف ہے ظالمانہ حکمرانی کا چلن
لے سکے جو اس سے ٹکر سر پھرا کوئی تو ہو
خوبئ دستور کے چرچے تو ہر جا ہیں مگر
غربتِ انساں مٹے گی فیصلہ کوئی تو ہو
اپنے اپنے نظرئیے میں انتہا کرتے ہیں سب
عدل یا انصاف کی بھی ابتداء کوئی تو ہو
ہے یہی بس اک توقع دوسروں سے بھی ہمیں
ہم سا عاکف بے نیاز و بے ریا کوئی تو ہو
Source: admin@hackerspk.com
Posted By Adim H@$$@N, Rehan , Fahad ROHBAZ SHAH

No comments: