Wednesday, April 15, 2009

UrDU Ghazlain ...2

احسان میری ذات پہ فرما تو گئے ہیں

پوچھا نہ حال میرا مگر آ تو گئے ہیں

بندہ نواز آپکا احسان مند ہوں

کہ آپ میرے دل پہ ستم ڈھا تو گئے ہیں

احسان مانتا ہوں حضور آپکا کہ آپ

صورت دکھا کے چل دئیے بہلا تو گئے ہیں

اتنی تو مجھ پہ بارشیں برسیں نہیں کبھی

صد شکر مجھ پہ غم سہی برسا تو گئے ہیں

تازہ تھے دل میں پھول تیرے انتظار کے

وہ اوس پڑی ان پہ کہ کمھلا تو گئے ہیں

جب وقت برا آئے تو سایہ نہ ساتھ دے

یہ بات بھی حضور ہی سمجھا تو گئے ہیں

جو درد پڑیں دل پہ وہ سہہ لیں گے شوق سے

دل کو تمہارے درد پر سہما تو گئے ہیں

یہ مت کہو کہ ہم نے تم سے بات ہی نہ کی

یہ روپ پا کے آپ کا پتھرا تو گئے ہیں

مر جاؤجامیؔ تم کہ تمہاری حیات سے

وہ تنگ آچکے ہیں وہ گھبرا تو گئے ہیں


وہ عشق جو


وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں کوئی سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تادیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار دیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا


اُٹھ پاکستانی


اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
تیرا سجّن یورپ نہ امریکہ
تیرا ساتھی چین نہ جاپان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

نہ کر بھروسہ غیروں کی مدد پر
اپنی زمیں ا ور اپنوں پر نظر کر
اور رکھ اپنی طاقت پر ایمان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

دساور کا مال جو کھائے
ہڈ حرام وہ ہوتا جائے
بھر اپنے کھیتوں سے کھلیان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

دہشتگرد کہہ کر نہ گِرا
اپنوں کی لاشیں جا بجا
اپنے خون کی کر پہچان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

کرے جو تو محنت مزدوری
دال روٹی بن جائے حلوہ پوری
حق حلال کی اب تُو ٹھان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان


رنجش ہی سہی


رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے ليے آ
آ پھر سے مُجھے چھوڑ کے جانے کے ليے آ

پہلے سے مراسم نا سہی پھر بھی کبھی تو
رسمِ راہِ دنيا ہی نبھانے کے ليے آ

کس کس کو بتائيں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے ليے آ

کچھ تو ميرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو مجھ کو منانے کے ليے آ

ايک عمر سے ہوں لذتِ گِريہ سے بھی محروم
اے راحتِ جان مجھ کو رُلانے کے ليے آ

اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہيں اميديں
يہ آخری شمعيں بھی بُجھانے کے ليے آ

گھروندے


گھروندے ریت کے اکثر ہوا سے ٹوٹ جاتے ہیں
کہ جسموں سے جڑے رشتے عموماً چھوٹ جاتے ہیں

جو رشتہ ہے تو روح کا ہے جو بندھن ہے تو دل کا ہے
سمجھائیں جنہیں ہم یہ وہ ہم سے روٹھ جاتے ہیں

جو بندھن خود سے جڑتے ہیں وہی مضبوط ہوتے ہیں
زبردستی سے جوڑے رشتے اکثر چھوٹ جاتے ہیں

نہ رہ کے تم عدو ڈالو شیشے کے مکانو ں میں
کہ پتھر ان سے ٹکرائیں تو شیشے ٹوٹ جاتے ہیں

نہ دل میں دو جگہ کوئی کسی بھی بد گمانی کو
محبت میں ہو شک ناہید تو ساتھی چھوٹ جاتے ہیں

ہمیں تم سے محبت


ستم سہنے کی عادت ہوگئی ہے
ہمیں تم سے محبت ہوگئی ہے

ستم کر دو ہماری جان پر اب
تمھارا درد، چاہت ہوگئی ہے

ہمارے دل پہ اپنا ہاتھ رکھ دو
اسے تم سے شکایت ہوگئی ہے

ہمیں اپنی جفاؤں سے ستاؤ
بہت بے تاب حسرت ہوگئی ہے

تیری یاد

کیسے بھلا دوں دل سے تمہاری یاد کو
اگرچہ وہ کڑوی ہے مگر حسین بھی تو تھی

تمہیں کبھی نہ شکایت ہو گی ،تمہاری انا قائم ہے
رکوع کرتی پلکیں تھیں،سجدہ کرتی جبین بھی تو تھی

کیسے لکھوں اپنا حال جب تم نے مجھے ٹھکرایا تھا
کچھ تو سرکا تھا آسمان ،کچھ سرکی ہوئی زمین بھی تو تھی

کیسے نہ خوشبو پھیلتی تیری محبت کی چار سُو
اُدھر تو،اِدھر تیری محبت دل میں گوشہ نشین بھی تو تھی

اُس کی محبت کا جادُو سر چڑھ کر بولنے لگا شدت سے
وہ اگر بے وفا تھا،اُس کی گفتگو ذرا دل نشین بھی تو تھی!


مجھ سے ناراض


مجھ سے ناراض ہو تو ہوجاؤ
خود سے لیکن خفا خفا نہ رہو


مجھ سے تًم دور جاؤ تو جاؤ
آپ اپنے سے تُم جدا نہ رہو


مجھ پہ چاہے یقین کرو نہ کرو
تم کو خود پر مگر یقین رہے


سَر پر ہوآسمان یا کہ نہ ہو
پیر کی نیچے یہ زمیں رہے


دل



آج اُن سے ملنے کو دل چاہتا ہے
پاس بیٹھ کر بات کرنے کو دل چاہتا ہے


اتنا حسین تھا اُن کا منانے کا انداز
آج پھر روٹھ جانے کو دل چاہتا ہے


خوشی ملی تو ہنس نہ سکے
غم ملے تو رو نہ سکے
زندگی کا یہ دستور ہے


جسے چاہا اُسے پا نہ سکے
اور جسے پایا اُسے چاہ نہ سکے


چپ سے رہتے ہو


کیسی وحشت ہے، چپ سے رہتے ہو
کیا محبت ہے ،چپ سے رہتے ہو

کیا نہیں بات کوئی کہنے کی
یا یہ عادت ہے چپ سے رہتے ہو

شام کرتی ہے تم سے با ت مگر
کیا قیامت ہے ، چپ سے رہتے ہو

ڈھونڈتے کیا ہو آئینے میں تم
کیسی حیرت ہے چپ سے رہتے ہو

مسئلہ ہے یہ کوئی چپ رہنا
یا شرارت ہے چپ سے رہتے ہو

ہر طرف گونجتی ہیں آوازیں
تم پہ حیرت ہے چپ سے رہتے ہو


ایک شخص


مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں
مری زیست کے کسی موڈ پر جو مجھے ملا تھا بہار میں

وہی اک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں, میری خواہشوں کے دیار میں

وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں, کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں

یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے یہ تو صرف بخت کی بات ہے
کوئی فاصلہ تو نہیں, تیری جیت میں میری ہار میں

ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ہے
کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں

کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا
نہ تیری طلب کے گداز میں نہ میرے ہنر کے وقار میں


کچھ عشق تھا


کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

ک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ اک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تو جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا

میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا


وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا


تم اس قدر شاداب ہو


تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو

تم لب بہ لب،تم دل بہ دل،تم جاں بہ جاں،

اک نشہ ہو اک خواب ہو تم کون ہو،

جو دستِ رحمتنے میرے دل پر لکھا

تم عشق کاوہ باب ہو ،تم کون ہو،

میں ہر گھڑی اک پیاس کاصحرا نیا

تم تازہتر اک آب ہو، تم کون ہو،

میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے

تم اس قدر بے تاب ہو ،تم کون ہو

میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی

تم روح تک سیراب ہو ،تم کون ہو،،

یہ موسم کیمابی گلُ کل بھی تھا

آج بھی نایاب ہو، تم کون ہو

،چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسےصدا

دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں

کیسے میرے احباب ہو،تم کون ہو،

وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و در،

اس گھر کا تم ہو تم کون ہو

گھر کا تماسباب ہو تم کون ہو،،

میرا بہت آداب ہو تم کون ہو


محبت

محبت کے پاس کوئی دلیل نہیں
محبت کا کوئی وکیل نہیں
یہ سوچ والوں کی سمجھ سے پرے چیز ہے
یہ دنیا والوں کے لیے بری چیز ہے
اِس لیے یہ ہر آگ میں جل سکتی ہے
ہماری محبت پانی پر چل سکتی

دونوں جہاں

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے


مجھے محسوس ہوتا ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ میری ذات کے اندر
تیری چاہت بھرے موسم کی
بہت معصوم خواہش تھی
جسے بس یہ تمنا تھی
کہ تیرے نرم حرفوں کی ملاحت
تیرے لہجے کو بھی چھو لے ۔۔۔
اسے بس یہ تمنا تھی۔

مجھے بس اتنی حسرت تھی
تمہارا ہاتھ میرے ہاتھوں میں
ہمیشہ نہ رہے ۔۔۔ زنجیر کی صورت ۔۔۔
مگر اس وقت تو ہو
کہ جب میرا احساس تنہا ہو ۔۔۔
اور میرا ہاتھ خالی ہو !
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری ذات کے اندر
تیری چاہت بھرے موسم کی بہت معصوم خواہش تھی

جسے بس اتنا سا دکھ ہے ۔۔
تمہارا ہاتھ مل جاتا۔۔


دلہن

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے روشنی کے ہاتھوں‌میں‌
میں‌اپنے گھر کے اندھیروں میں‌ لوٹ آؤں گی

بدن کے قرب کو وہ بھی نہ سمجھ پائے گا
میں‌دل میں‌ رؤں گی آنکھوں‌میں‌مسکراؤں گی

وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں‌گی کسے مناؤں گی

وہ ایک رشتہ بےنام بھی نہیں‌لیکن
میں‌اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں‌اب بھی تیری آواز سن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں‌اس کو بھول جاؤں گی

روٹھوں


خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں

تُو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں

میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تُو جو چاہے تو تیرے واسطے دریا رو لوں

اور معیار رفاقت کے ہیں ، ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اُسی کے ہو لوں

خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں
وہ جو آئے تو خلوت کدہء جاں کھولوں


Source:admin@hackerspk.com

No comments: